Thursday 1 August 2013

Pathan Larki (urdu font)

پٹھان لڑکی

یہ کہانی بھی پہلے کی طرح سچی ہے تاہم اس کے کرداروں کے نام تبدیل کردیئے گئے ہیں تاکہ کسی کی شناخت ظاہر نہ ہوسکے یہ کہانی میرے ایک ماتحت کولیگ مظفر خان‘ اس کی بیوی روزینہ اور میری ہے اور اسے میں آپ لوگوں کے سامنے روزینہ کی زبانی پیش کررہا ہوں یہ کہانی میں روزینہ کی مرضی سے لکھ رہا ہوں پہلے تو روزینہ نے مجھے کہانی لکھنے سے منع کردیا لیکن بعد میں میری طرف سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط اور مسلسل اصرار پر اس نے اجازت دے دی اگر وہ مجھے اجازت نہ دیتی تو میں یہ کہانی کبھی بھی نہ لکھتا کہانی لکھنے کی اجازت دینے پر میں روزینہ خان کا بہت شکر گزار ہوں اور یہ کہانی بھی میں اسی کے نام کررہا ہوں
 Girls, Auntyand bottomcan contact sexexpert75@yahoo.com

میرا نام روزینہ خان ہے اور میری عمر 27 سال کے قریب ہوگی میرا تعلق کوئٹہ کے ایک پٹھان خاندان کے ساتھ ہے میری شادی 11 سال پہلے مظفر خان کے ساتھ ہوئی تھی جو اس وقت مجھ سے دس بارہ سال بڑا ہوں گے میں بہت زیادہ نہیں تو ایوریج خوب صورت ہوں جبکہ مظفر مجھ سے زیادہ ہینڈ سم اور بھر پور مرد تھے میں اس وقت بھی کافی حد تک پرکشش جسم کی مالک ہوں جبکہ مظفر مجھ سے بہت بڑی عمر کے معلوم ہوتے ہیں کوئی بھی ہم دونوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کی بیوی ہوں مظفر ایک سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں اور ان کی پوسٹیں شروع سے ہی کوئٹہ میں رہی ہے دو سال پہلے ان کی لاہور پوسٹنگ ہوئی اس وقت سے ہم لوگ لاہور میں رہائش پذیر ہیں پٹھان خاندانوں کی روایات کے برعکس ہمارے 3 بچے ہیں (حالانکہ کہ پٹھانوں کے دس دس بارہ بارہ بچے ہوتے ہیں) شادی کے 2 سال میں امید سے ہوئی تو خاندان میں بہت سی خوشیاں منائی گئیں لیکن میری ازواجی زندگی پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوئے مظفر اب مجھ سے ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہی ہم بستری کرتے تھے تین ماہ ایسے ہی گزر گئے اس کے بعد مظفر میرے پاس آنے سے بھی کتراتے میں کبھی کبھی دبے لفظوں میں ان سے ان کی بے رخی پر احتجاج کرتی تو کہتے تم امید سے ہو ایسا کرنے سے بچا ضائع ہوسکتا ہے کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے پھر ٹھیک ہوجائے گا آخر نو ماہ گزر گئے اور میں نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا سوا مہینہ گزارنے کے بعد مظفر پھر سے میرے ساتھ ہم بستری کرنے لگے مگر ان میں پہلے جیسا جوش نہیں تھا ان کی طرف سے جوش میں کمی کو میں بہت بری طرح محسوس کررہی تھی لیکن کچھ نہ کرسکی مزید کچھ عرصہ گزرا اور ہمارے ہاں دو مزید بچے پیدا ہوگئے جبکہ ہم میاں بیوی کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہوگئیں جس کی وجہ سے میں گھر میں گھٹن سی محسوس کرنے لگی ایسے ہی ہماری شادی کو نو سال کا عرصہ گزر گیا اب مظفر عمر کے اس حصہ میں پہنچ گئے تھے جہاں وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی میرے پاس آیا کرتے تھے کئی بار وہ مجھے ادھورہ ہی چھوڑ کر خود مجھے سے الگ ہوجاتے تھے جس پر مجھے بہت ہی ڈپریشن ہوتی تھی میں گھٹ گھٹ کر جی رہی تھی ایک دن مظفر گھر آئے تو بہت پریشان تھے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی ٹرانسفر لاہور ہوگئی ہے ان کے ساتھ میں بھی پریشان ہوگئی کہ پہلے تو مہینے میں ایک آدھ بار میرے قریب آجاتے تھے سیکس نہ ہی سہی کم از کم ان کا قرب تو مجھے نصیب تھا اب وہ لاہور چلے گئے تو میں مزید تنہائی کا شکار ہوجاﺅں گی مظفر نے اپنے کئی ہمدردوں اور دوستوں کو ٹرانسفر رکوانے کے لئے کہا مگر کچھ نہ بنا آخر ایک ہفتہ کے بعد مظفر ہم سب کو چھوڑ کر لاہور آگئے لیکن اگلے ہی مہینے وہ پھر کوئٹہ گئے اور مجھے بچوں سمیت لاہور لے آئے یہاں انہوں نے ایک مناسب سا گھر کرایہ پر لے لیا اور بچوں کو ایک سرکاری سکول میں داخل کرادیا یہاں بھی مظفر مسلسل کوئٹہ تبادلہ کرانے کے لئے کوشاں رہے مگر ناکامی ہوئی کوئٹہ میں جوائنٹ فیملی اور اپنا ذاتی گھر ہونے کی وجہ سے ہمارا گزر بسر بہت اچھا ہورہا تھا مگر لاہور میں آکر ہم مظفر کی محدود تنخواہ میں ہینڈ ٹو ماﺅتھ کی پوزیشن میں آگئے مہینے کے آخر میں گھر میں سب ختم ہوجاتا مظفر بہت پریشان رہتے
ایک دن مظفر نے دفتر سے گھر فون کیا اور کہا کہ روزینہ آج تیار ہوجانا شام کو ایک دوست کی دعوت ولیمہ پر جانا ہے میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ آج سے پہلے کبھی بھی میں خاندان کے قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کی شادی یا دوسرے فنکشن میں نہیں گئی تھی خیر میں نے ان سے کچھ نہ کہا اور ان کے گھر آنے سے پہلے خود تیار ہوگئی اور بچوں کو بھی تیار کردیا جبکہ مظفر کے کپڑے پریس کرکے رکھ دیئے مظفر نے آکر بتایا کہ صرف ہم دونوں چلیں گے بچے گھر پر رہیں گے دو تین گھنٹے تک ہم واپس آجائیں گے ہم بچوں کو گھر پر ہی چھوڑ کر رکشہ پر گلبر گ کے ایک شادی ہال میں چلے گئے جہاں بہت ہی گہما گہمی تھی مرد اور عورتیں ایک ہی ہال میں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے مجھے یہاں بہت ہی شرم آرہی تھی خیر مظفر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مجھ میں کچھ حوصلہ تھا میں ان کے ساتھ ہال میں داخل ہوگئی ہال کے دروازے پر مظفر نے اپنے دوست اور ان کی فیملی کے دیگر افراد کے ساتھ میرا تعارف کرایا اور ہم ہال میں ایک الگ میز پر بیٹھ گئے اس دوران کئی افراد مظفر کے ساتھ آکر ملے جبکہ میں منہ اپنی چادر کے ساتھ ڈھانپ کر خاموشی سے بیٹھی رہی کھانے کے دوران ایک شخص اچانک بغیر اجازت کے ہماری میز پر آبیٹھا مجھے اس کی یہ حرکت بہت ہی بری لگی لیکن وہ شخص آتے ہی مظفر کے ساتھ فرینک ہوگیا اور باتیں کرنے لگا میں نے کھانا چھوڑ کر منہ دوبارہ ڈھانپ لیا باتوں باتوں میں مظفر نے مجھے مخاطب کرکے کہا روزینہ یہ میرے باس شاکر صاحب ہیں اور شاکر صاحب یہ میری بیوی روزینہ
”ہیلو کیا حال چال ہیں“ اب وہ شخص مجھ سے براہ راست مخاطب تھا
یہ میری زندگی میں پہلی بار کسی غیر محرم نے مجھے براہ راست میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب کیا تھا میں اس وقت شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ان کی طرف سے حال چال پوچھنے پر میں صرف سر ہی ہلا سکی
” میں ان کا باس واس نہیں صرف کولیگ ہوںمظفر تو بس ایسے ہی ذرے کو پہاڑ بنا دیتے ہیں “ وہ شخص ابھی تک مجھے گھورے جارہا تھا
میں ابھی بھی نظریں نیچی کئے خاموش بیٹھی ہوئی تھی اس کے بعد وہ شخص مظفر کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور دس پندرہ منٹ کے بعد اٹھ کر چلا گیا آخر دو تین گھنٹے کے بعد فنکشن ختم ہوگیا اور ہم میزبان سے اجازت لے کر ہال سے باہر نکل آئے اور سڑک پر رکشہ کے انتظار میں کھڑے ہوگئے چند لمحوں کے بعد ہی ایک کار ہمارے قریب آکر رکی اس میں مظفر کا باس شاکر ہی بیٹھ تھا اس نے کہا مظفر صاحب کدھر جانا ہے مظفر نے اس سے کہا کہ سر ہم کو چوبرجی کی طرف جانا ہے تو اس شخص نے کار کا اگلا دروازہ کھولتے ہوئے کہا کہ آئےے میں آپ کو ڈراپ کردوں گا مظفر نے پہلے تو انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں سر آپ خواہ مخواہ تکلیف کررہے ہیں ہم رکشہ پر چلے جائیں گے مگر اس شخص نے کہا تکلیف کی کوئی بات نہیں میں بھی ایک کام کے سلسلہ میں ادھر ہی جارہا ہوں جس پر مظفر نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں ہچکچاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی اور مظفر اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے راستے میں مظفر اور شاکر دونوں باتیں کرتے رہے میں ان کی باتوں سے بے نیاز چادر سے منہ ڈھانپے باہر دیکھ رہی تھی چوبرجی پہنچ کر اس شخص نے ہم کو اتار دیا اور جاتے ہوئے مظفر سے کہنے لگا یار مظفر کبھی بھابھی کو لے کر ہمارے گھر بھی آﺅ جس پر مظفر نے کہا ٹھیک ہے سر کبھی آﺅں گا مگر آپ یہاں تک آگئے ہیں اسی گلی میں ہمارا گھر ہے چائے تو پی کر جائیں مگر وہ ان کی بات سنی ان سنی کرکے چلا گیا
میں نے گھر آکر مظفر سے کہا کہ کیا ضرورت تھی مجھے اس فنکشن میں لے کر جانے کی اور پھر آپ ایک اجنبی کے ساتھ گاڑی میں مجھے لے کر بیٹھ گئے مگر مظفر نے کہا کہ وہ شخص اجنبی نہیں تھا میرا باس تھا جبکہ اس فنکشن میں سب لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور میرے دوست نے مجھے بھی فیملی کے ساتھ آنے کو کہا تھا میں اکیلا جاتا تو سب مجھ سے ناراض ہوتے کہ فیملی کے ساتھ کیوں نہیں آیا
چند روز گزرے کہ ایک روز مظفررات کو لیٹ گھر آئے تو ان کے ساتھ شاکر نامی شخص بھی تھا مظفر ان کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھ گیا اور مجھے چائے لانے کو کہا اس وقت تینوں بچے سو چکے تھے میں نے چائے تیار کی اور بیٹھک کے اندرونی دروازے سے مظفر کو آواز دی کہ چائے لے لیں مظفر نے مجھے کہا کہ اندر ہی لے آﺅ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی کہ کبھی بھی پہلے میں بیٹھک میں کسی مہمان کی موجودگی میں نہیں گئی تھی چائے وغیرہ یا تو بچے لے جاتے یا مظفر خود پکڑ لیتے تھے میں اس وقت صرف دوپٹہ لئے ہوئے تھی خیر میں ان کے حکم پر اپنا دوپٹہ درست کرکے چائے اندر ہی لے گئی اور چائے رکھ کر واپس آگئی مجھے محسوس ہوا کہ شاکر مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا ہے میں چائے رکھ کر فوراً ہی واپس آگئی دونوں بیٹھک میں کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے دس پندرہ منٹ کے بعد مظفر مہمان کو الوداع کرکے کمرے میں آگئے میں ان پر برس پڑی کہ آپ نے مجھے کیوں اندر بلایا تو کہنے لگے یہ لاہور ہے اور اگر یہاں ہمیں رہنا ہے تو تمام لوگوں کی طرح ہی رہنا ہوگا ورنہ تمام لوگ ہم سے ملنا جلنا چھوڑ دیں گے کوئٹہ کی طرح لاہور میں نہیں رہا جا سکتا ہاں شاکر صاحب مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے ہیں بتاﺅ کس دن چلیں میں نے کہا کہ مجھے نہیں جانا کسی شاکر واکر کے گھر لیکن مظفر نے خود ہی کہا کہ اگلے اتوار کو چلیں گے اور تم بھی میرے ساتھ چلو گی میں خاموش رہی
اتوار کے روز مظفر نے مجھے صبح دس بجے کہا کہ تیار ہوجاﺅ آج ہمیں دوپہر کا کھانا شاکر صاحب کے ہاں کھانا ہے میں نے انکار کیا تو کہنے لگے مجھے نہیں معلوم تم جلدی سے تیار ہوجاﺅ اور میرے کپڑے بھی پریس کردو میں نہ چاہتے ہوئے بھی کپڑے چینج کرکے ان کے ساتھ چل دی ہم رکشہ لے کر شاکر صاحب کے گھر چلے گئے ان کے گھر گئے تو ایک نوکر نے دروازہ کھولا اور ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا اور چائے کے ساتھ بسکٹ دیئے اس نے بتایا کہ شاکر صاحب تو ابھی گھر سے باہر گئے ہیں تھوڑی دیر تک آجائیں گے تھوڑی دیر کے بعد شاکر صاحب بھی گھر آگئے اور ساتھ میں بڑے بڑے شاپروں میں کھانا لے آئے شاپر نوکر کو پکڑا کر خود ہمارے پاس بیٹھ گئے میں یہ بات نوٹ کررہی تھی کہ شاکر بار بار میری طرف دیکھتا اور میرے جسم کا جائزہ لیتا تھا میں خاموشی سے بیٹھی رہی باتوں باتوں میں شاکر نے کہا کہ بھابھی لگتا ہے آپ یہاں ایزی فیل نہیں کررہیں میں نے انکار میں سر ہلایا تو کہنے لگا کہ پھر آپ ابھی تک خاموش بیٹھی ہوئی ہیں میرے گھر میں کوئی خاتون نہیں ہے اس لئے مجھے ہی آپ کو کمپنی دینا ہوگی آپ اپنے ہی گھر میں بیٹھی ہیں
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کی باتیں انجوائے کررہی ہوں “
آپ کو ہمارے دفتر کی باتوں سے کون سی انجوائے منٹ مل رہی ہے
بس ٹھیک ہے آپ باتیں کیجئے
اچھا آپ بتائیں لاہور آکر کیسا فیل کررہی ہیں
ٹھیک
بچوں کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے
ٹھیک ہی ہے
ویسے پہلے پہل مظفر تو بہت تنگ تھا لیکن اب کافی حد تک ایڈجسٹ کرچکا ہے
”نہیں سر ایسی بات نہیں مجبوری ہے ورنہ میرا بس چلے تو ایک منٹ بھی لاہور میں نہ ٹھہروں “اس بار میری بجائے مظفر نے جواب دیا
یار نوکری میں تو ایسا ہوتا ہے
ہاں سر مگر آپ کچھ کیجئے نہ
میں کیا کرسکتا ہوں
سر آپ چاہیں تو میری ٹرانسفر دوبارہ کوئٹہ ہوسکتی ہے
مظفر تم کو معلوم ہے کہ پالیسی کتنی سخت ہوگئی ہے میں فی الحال کچھ بھی نہیں کرسکتا ہاں اگر تم کہوں تو میں کراچی یا اسلام آباد کے لئے ٹرائی کرسکتا ہوں
سر نہیں ابھی بہت مشکل سے یہاں تھوڑا سا دل لگا ہے وہاں پھر جاکر نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا
ہاں یہ تو ہے
لیکن سر آپ کوشش ضرور کیجئے گا
ٹھیک ہے
اب پھر شاکر نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بھابھی مظفر آپ کو آﺅٹنگ پر بھی لے کر گیا ہے یا نہیں
نہیں میں نے خود ہی کبھی ان سے نہیں کہا اور ویسے بھی میری عادت ہی ایسی ہے کہ کم ہی گھر سے نکلتی ہوں کوئٹہ میں تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھی جانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا اور بڑوں سے اجازت لینا پڑتی تھی یہاں تو پھر بھی کبھی کبھی مظفر مجھے کہیں نہ کہیں لے جاتے ہیں میں اب کافی حد تک خود کو ایزی فیل کررہی تھی لیکن شاکر کی نظریں اب بھی مجھے میرے جسم کے اندر جانکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی
لیکن بھابھی یہ لاہور ہے اور یہاں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے یہاں کے ماحول کے حساب سے رہنا پڑے گا
میں پھر خاموش ہوگئی
کھانا کے دوران مظفر اور شاکر باتیں کرتے رہے اور میں خاموشی سے بیٹھی تھوڑا بہت کھاتی رہی کھانا بہت لذیز تھا کھانے کے بعد ہم پھر کمرے میں آبیٹھے جہاں آکر شاکر نے کہا کہ اب کھانا تو کھا لیا ہے آج چائے بھابھی کے ہاتھ کی پیئں گے
مظفر نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ روزینہ تم چائے بنا لاﺅ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور شاکر میری رہنمائی کرتے ہوئے کچن تک لے آیا اور مجھے دودھ چائے اور چینی دے کر خود کمرے میں جابیٹھا میں چائے لے کر کمرے میں گئی تو دونوں قہقہے لگا رہے تھے
” واہ چائے تو بہت مزیدار ہے “شاکر نے پہلا گھونٹ لیتے ہی بول دیا
”ہاں بھئی ہماری بیگم کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہیں لیکن ہمارے روائتی کھانے شائد آپ پنجابی لوگ پسند نہ کریں “مظفر نے جواب دیا
نہیں یار تم نے کبھی دعوت ہی نہیں دی ہم کیسے کھا سکتے ہیں بھابھی کے ہاتھ کے پکے کھانے ویسے مجھے افغانی کھانے بہت پسند ہیں
نہیں سر آپ جب دل چاہے آجائیں
ٹھیک ہے کسی دن پروگرام بنائیں گے
ہاں ٹھیک ہے لیکن سر آنے سے ایک دو دن پہلے بتا دیجئے گا
ٹھیک ہے
مظفر اور شاکر دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اس دوران شاکر کبھی کبھی مجھے بھی مخاطب کرلیتا جبکہ میں صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی جبکہ شاکر بار بار مجھے بار بار گھور رہا تھا باتوں باتوں میں شام کے چار بج گئے اب مظفر نے شاکر سے اجازت لی تو شاکر اندر سے دو پیکٹ اٹھا کر لایا اور مجھے تھما دئےے اور کہا کہ بھابھی یہ میری طرف سے آپ کے لئے گفٹ ہیں آپ پہلی بار میرے گھر آئی ہیں جلدی میں بازار سے صرف یہی لا سکا ہوں اور مظفر یہ تمہارے لئے ایک پیکٹ اس نے مظفر کے ہاتھ میں دے دیا
”سر اس کی کیا ضرورت تھی “مظفر نے پیکٹ پکڑتے ہوئے کہا
نہیں نہیں یار آپ لوگ پہلی بار میرے گھر آئے ہو پھر معلوم نہیں زندگی کہاں لے جائے
اس کے بعد شاکر ہم کو گھر تک چھوڑنے آیا اور گھر کے دورازے تک چھوڑ کر خود چلا گیا
گھر آکر میں نے مظفر سے کہا کہ میں آئندہ کبھی کسی کے گھر نہیں جاﺅں گی تم نے دیکھا تمہارا باس مجھے کس طرح گھور رہا تھا لیکن مظفر نے کہا کہ شاکر ایسا آدمی نہیں ہے بہت اچھا ہے دفتر میں مجھے کبھی بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اس کا ماتحت ہوں اور تم کو خواہ مخواہ ہی ایسا محسوس ہورہا ہے اس کے بعد مظفر نے تینوں پیکٹ خود ہی کھول دیئے دوپیکٹس میں ہم دونوں کے سوٹ تھے جبکہ ایک میں میرے لئے جیولری تھی کافی مہنگی معلوم ہوتی تھی مظفر نے دیکھ کر کپڑوں اور جیولری کی تعریف شروع کردی اور مجھ سے کہا کہ کس دن شاکر صاحب کو اپنے گھر کھانے کو مدعو کروں میں نے کہا کہ جس دن مرضی کرلیں مگر میں ان کے سامنے نہیں جاﺅں گی مظفر نے جواب دیا نہ جانا تمہاری مرضی اگلے اتو ار کو ٹھیک رہے گا میں نے کہا ٹھیک ہے مظفر جمعہ کے دن گوشت اور کچھ فروٹ وغیرہ گھر لے آئے اور کہا کہ پرسوں شاکر صاحب آرہے ہیں اور تم اچھا سا کھانا پکا دینا
اتوار کے روز صبح ہی میں نے بھنہ گوشت‘ روسٹ اور شوربہ( افغانی روائتی کھانے) تیار کرنا شروع کردیئے بارہ بجے کے قریب شاکر ہمارے گھر آدھمکا میں روائتی افغانی چائے (قہوہ) ان کے لئے تیار کرکے اپنے بڑے بیٹے کے ہاتھ بیٹھک میں بھجوادیا اس پینے کے بعد کھانا بھی بھجوادیا شاکر صاحب تین بجے کے قریب گھر سے چلے گئے اس کے بعد مظفر اندر آئے اور کہنے لگے کہ تم بیٹھک میں کیوں نہیں آئی میں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی آپ کو بتادیا تھا کہ میں کسی کے سامنے نہیں جاﺅں گی کہنے لگے شاکر صاحب نے بار بار پوچھا کہ بھابھی کیوں نہیں آئیں اور کافی ناراض بھی ہورہے تھے میں خاموش رہی
اس کے بعد روز ہی مظفر گھر آکر شاکر صاحب کے گھن ہی گاتے رہتے اور روٹین میں دن گزرتے گئے تقریباً ایک ماہ بعد مظفر نے مجھے کہا کہ آج شاکر صاحب کے ہاں کچھ مہمان آنے والے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ان کے لئے افغانی کھانے بنوانا چاہتے ہیں میں تم کو اگلے ہفتہ کو ان کے گھر لے چلوں گا میں نے انکار کیا تو کہنے لگے جیسا میں کہتا ہوں کرو شاکر صاحب کے ساتھ میرا تعلق بھائیوں کی طرح ہوچکا ہے اور تم بھی ا ن کو اجنبی نہ سمجھا کرو خیر میں ہفتہ کے روز صبح مظفر کے ساتھ شاکر کے گھر چلی گئی شاکر گھر میں ہی موجود تھا مجھے کچن میں چیزیں دے کر خود دونوں گاڑی پر بیٹھ کر دفتر چلے گئے دوپہر کے وقت مظفر کا فون آیا انہوں نے میرا حال چال پوچھا اور مجھے افغانی ڈشز اچھی طرح تیار کرنے کی ہدایت کرنے لگے ڈیڑھ بجے کے قریب دروازے پر بیل ہوئی نوکر نے دروازہ کھولا اور شاکر آگئے وہ سیدھا کچن میں ہی آگئے اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بھابھی جیسا کھانا آپ نے گھر میں کھلایا تھا ویسا ہی ہونا چاہئے میں ان کے پیچھے دیکھنے لگی کہ مظفر بھی ان کے ساتھ ہی ہوں گے مگر وہ اکیلا ہی تھا میں نے ان سے مظفر کے بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگا کہ میں تو کسی دفتر ی کام کے سلسلہ میں ادھر آیا تھا سوچا گھر چکر لگا لوں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے معلوم کرلوں مظفر ابھی دفتر میں ہے مجھے بھی جانا ہے شام کو اکٹھے ہی آجائیں گے اور ہاں بھابھی مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے اگر کوئی ڈش تیار ہوگئی ہو تو مجھے تھوڑا سا کھانا دے دیں یہ کہہ کر شاکر نے نوکر کو بازار سے کولڈ ڈرنک لانے کے لئے بھیج دیا اور خود کچن کے دروازے پر ہی کھڑا ہوگیا مجھے بہت عجیب سا محسوس ہورہا تھا وہ مسلسل مجھے گھور رہا تھا جس کی وجہ سے میرے ہاتھ کانپنے لگے تھے اس دوران میرے ہاتھ سے پلیٹ بھی گرنے لگی لیکن میں سنبھل گئی میں نے پلیٹ میں روسٹ کا ایک پیس رکھ کر ان کو دیا تو یہیں پر ہی کھڑے ہوکر کھانے لگے
”واہ بھئی واہ بھابھی آپ نے تو کمال کردیا اتنا لذیز کھانا کمال ہے بھابھی آپ کے ہاتھ میں تو جادو ہے جادوآپ جتنی خود خوب صورت ہیں اتنے اچھے کھانے بھی تیار کرتی ہیں “
میں پہلی بار کسی کے منہ سے اپنی تعریف سن رہی تھی اور مجھے عجیب سا لگ رہا تھا اس سے پہلے مظفر نے بھی میری کبھی تعریف نہیں کی تھی
شاکر نے پھر مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بھابھی آپ کو میری طرف سے دیا ہوا سوٹ اور جیولری کیسی لگی میرے خیال سے وہ آپ پر بہت سوٹ کرے گی ویسے آپ جیولری کے بغیر بھی بہت خوب صورت ہیں لیکن وہ جیولری آپ کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دے گی
میں مسلسل خاموش تھی اور اپنی تعریف سن کر میرے ہاتھ پاﺅں سن ہورہے تھی کوئی اجنبی پہلی بار اس طرح میرے ساتھ مخاطب تھا
تھوڑی دیر کے بعد شاکر چلے گئے اور شام کو مظفر کے ساتھ گھر آگیا ہم دونوں کو شاکر کا نوکر گھر ڈراپ کرکے واپس آگیا گھر جاکر میں نے سوچا کہ مظفر کو سب کچھ بتادوں مگر معلوم نہیں کیوں خاموش رہی
اگلے روز شاکر کا فون آیا اور کچھ باتیں کرنے کے بعد مظفر نے فون مجھے دے دیا دوسری طرف شاکر تھا
بھابھی آپ نے تو کمال کردیا میں نے تو کل ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں جادو ہے میرے دوست یوکے سے آئے ہوئے تھے بہت تعریف کررہے تھے میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی
اب اکثر شاکر کا فون آجاتا اور مظفر مجھے فون تھما دیتا میں مجبوراً تھوڑی بہت بات کرکے فون بند کردیتی کئی بار وہ خود بھی مظفر کے ساتھ ہمارے گھر آجاتا مگر میں کوشش کرتی کہ اس کے سامنے نہ ہی جاﺅں مگر مظفر مجھے مجبور کرتا تو میں چلی جاتی و ہ اب بھی میری طرف گھورتا اور مجھے محسوس ہوتا کہ اس کی نظر بہت گندی ہے
ایک روز رات کو مظفر اور میں لیٹے ہوئے تھے مظفر نے مجھے کہا کہ روزینہ شاکر صاحب میری کوئٹہ ٹرانسفر کراسکتے ہیں میں خاموش رہی انہوں نے پھر مجھے مخاطب کیا سمجھ نہیں آتا ان کو کیسے قائل کروں روزینہ تم یہ کام کرسکتی ہو
تم کیوں نہیں شاکر صاحب کو کہتی
میں ! میں کیسے کہہ سکتی ہوں
تم کہہ سکتی ہو اور وہ تمہاری بات نہیں ٹالے
آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں
میں ٹھیک کہہ رہا ہوں
مظفر نے یہ کہتے ہوئے اپنے موبائل سے شاکرکو فون ملایا اورسپیکر آن کرکے مجھے تھما دیا اور کہنے لگے کہ ان سے ابھی صرف حال چال ہی پوچھنا
میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی فون کان کو لگا لیا تیسری یا چوتھی بیل پر شاکر نے فون اٹھا
ہیلو کیا حال ہے مظفر
میں روزینہ بول رہی ہوں
جی کیا حال ہے بھابھی
ٹھیک ہوں
کیسے مجھے فون کرلیا
بس ایسے ہی
کیا مظفر سو رہے ہیں
نہیں
اچھا باہر گئے ہوں گے تو آپ نے سوچا کہ مجھے فون کرلیں مہربانی میں بھی کافی دن سے چاہ رہا تھا کہ کبھی اکیلے میں بات ہو مگر موقع ہی نہیں مل رہا تھا
کیا کہنا تھا آپ نے
بس آپ کی تعریف کرنے کو دل چاہتا تھا اور مظفر کے سامنے میں کرنا نہیں چاہتا تھا معلوم نہیں کیا سوچے گا
(یہ سب باتیں مظفر بھی سن رہا تھا )
کس بات کی تعریف
آپ تو ساری کی ساری تعریف کے لائق ہیں کہاں سے شروع کروں مظفر کو تو آپ کی قدر ہی نہیں ہوگی جتنی آپ خوب صورت ہیں اور ایک بات میں آپ سے مزید پوچھنا چاہوں گا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو
کیا ! پوچھیں
مظفر تو آپ سے عمر میں بہت بڑا لگتا ہے اور اس کی صحت بھی اتنی اچھی نہیں ہے مگر آپ تو ابھی تک جوان ہیں کیا مظفر آپ کو سیکس میں مطمیئن کردیتا ہے
میں شاکر سے اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا فوراً فون بند کردیا اور سوالیہ نظروں سے مظفر کی طرف دیکھنے لگی جو مجھ سے نظریں چرا رہا تھا تھوڑی دیر بعد مجھ سے بولا تم دوبارہ شاکر صاحب کو فون کرو اور ان کے ساتھ ایسی ہی باتیں کرو جیسی وہ کررہے ہیں یہ سالا ایسے ہی کام کرے گا مجھے پہلے ہی پتہ تھا
نہیں میں نہیں کرسکتی یہ بے غیرتی
نہیں تم کرو صرف فون ہی تو کرنا ہے
نہیں مظفر میں نہیں کرسکتی
تم کو کرنا ہی ہوگا (اب کی بار مظفر کا لہجہ سخت اور انداز حکمیہ تھا)
میں نے فون دوبارہ ملایا اور اگلی طرف سے فون اٹھاتے ہی کہا کٹ گیا تھا
مجھے معلوم تھا آپ دوبارہ کریں گی
جی
میں نے کچھ آپ سے پوچھا تھا
کیا
یہی کہ مظفر آپ کی سکیس کی ضرورت پوری کرتا ہے
جی ایسی بات نہیں
مجھے معلوم ہے یہ بوڑھا تم کو کیا پورا کرتا ہوگا روزینہ جس دن سے تم کو دیکھا ہے دل چاہتا ہے تم کو جی بھر کے پیار کروں میں نے تمہارے جیسی خوب صورت لڑکی آج تک نہیں دیکھی
جی دیکھیں آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں
تو کیسی باتیں کروں آپ کوئی اور بات کرلیں میرے ذہن میں تو جو بات ہوگی میں تو وہی کروں گا
جی میں نے تو اس لئے فون کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے کہ مظفر کی ٹرانسفر کرادوں
جی
مجھے معلوم ہے لیکن میں جان بوجھ کر ایسا نہیں ہونے دے رہا میں تم کو خود سے دور نہیں ہونے دینا چاہتا
جی ہمیں بہت پرابلم ہے آپ کو معلوم نہیں ہے
مجھے معلوم ہے میں ایک شرط پر ایسا کرسکتا ہوں
کیا شرط
تم کو اکیلے میرے گھر آنا ہوگا
جی میں کیسے آسکتی ہوں اگر مظفر کو معلوم ہوگیا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالیں گے
نہیں مارے جیسے مجھے فون کررہی ہیں ویسے خود آجائیں اسے کیسے معلوم ہوگا کسی دن صبح ہی آجائیں مظفر آفس گیا ہوگا اور اس کے واپس گھر جانے سے پہلے میں آپ کو واپس ڈراپ کردوں گا اور آپ بچوں کو کہہ دیں کہ آپ بازار گئی تھیں
میں خاموش ہوگئی
ٹھیک ہے سوچ کر کل بتا دیں میں آپ کے فون کا انتظار کروں گا (یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا )
میں نے فون مظفر کو پکڑا کر تلخی بھرے لہجے میں اس سے کہا کہ دیکھ لیا کس ذہن کا بندہ ہے اور تم کہتے ہو کہ ایسا ویسا بندہ نہیں ہے اور میرے ساتھ اس کا تعلق بھائیوں جیسا ہے
مظفر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے تم کل صبح ہی اس کے گھر چلی جاﺅ
کیا کہا آپ کا دماغ تو پاگل نہیں ہوگیا ( میں نے کبھی بھی اس سے پہلے مظفر کے ساتھ اس طرح بدتمیزی کے ساتھ بات نہیں کی تھی مگر آج ان کی بات سن کر نہ جانے کیسے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل آئے)
کچھ بھی نہیں ہوگا ایک بار میری ٹرانسفر ہوجائے
مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا
پلیز روزینہ تم کو یہ کام کرنا ہی ہوگا میرے لئے ‘ بچوں کے لئے ‘ تم کو معلوم ہے یہاں گزارہ کرنا مشکل ہورہا ہے
نہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا
روزینہ پلیز
میں خاموش ہوگئی اور سوچنے لگی کہ مظفر کو کیا ہوگیا ہے اور وہ مجھے کس کام کے لئے کہہ رہے ہیں ۔
چند منٹ کے بعد مظفر کہنے لگے کہ میں شاکر کو فون ملا رہا ہوں تم اس سے کہو کہ میں کل صبح آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں میں نے ناں کہی لیکن مظفر نے یہ کہتے ہوئے فون ملا کر میرے ہاتھ میں تھما دیا کہ کچھ نہیں ہوتا
اگلی طرف سے فوراً ہی فون اٹھا لیا گیا
جی روزینہ
شاکر صاحب میں کل صبح آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں
گڈ ویری گڈ میں آپ کو صبح ساڑھے نو بجے اس وقت آپ کے گھر سے ہی پک کرلوں گا جب مظفر دفتر کے لئے نکل جائے گا اور آپ کے بچے سکول جاچکے ہوں گے یہ کہتے ہی شاکر نے فون بند کردیا
میں نے فون مظفر کو دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی مظفر بھی شرمندہ سے تھے انہوں نے نظریں چراتے ہوئے کہا روزینہ میری خاطر ایک بار صرف ایک بار مجھے معلوم ہے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے اگر کسی کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو ہم جی نہیں سکیں گے مگر صرف ایک بار
میں خاموش رہی اور دوسری طرف منہ کرکے لیٹ گئی ساری رات مجھے نیند نہیں آئی میں جانے کن سوچوں میں گم رہی مظفر کی کروٹوں سے لگا کہ وہ بھی نہیں سو سکا صبح سات بجے میں اٹھی تو ساتھ ہی مظفر بھی اٹھ گئے ایک بار پھر کہنے لگے پلیز روزینہ ایک بار کسی طرح ٹرانسفر کوئٹہ ہونی چاہئے اس کے لئے تم قربانی دو میں خاموش رہی اور باتھ روم میں چلی گئی واپس آئی تو مظفر گھر سے جاچکے تھے میں نے بچوں کو ناشتہ دیا اور ان کو سکول بھیج کر کپڑے پہننے لگی ٹھیک ساڑھے نو بجے دروازے پر بیل ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے شاکر تھا ۔
ہیلو کیا حال ہیں کیا آپ تیار ہیں
جی
آجائیں گاڑی میں گاڑی میں بیٹھا آپ کا انتظار کررہا ہوں
میں نے گھر کو لاک کیا اور باہر نکلنے لگی باہر جاتے ہوئے میں پاﺅں سو سو من کے ہوگئے مجھ سے قدم نہیں اٹھایا جارہا تھا میں آہستہ آہستہ چلی اور گاڑی تک پہنچی تو شاکر نے گاڑی کا اگلا دروازہ کھول دیا میں اندر بیٹھ گئی اور شاکر نے گاڑی چلا دی میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور دل میں جانے کون کون سی سوچیں آرہی تھیں راستے میں ایک دوبار شاکر نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن میں خاموش رہی تو شاکر نے بھی خاموشی سے گاڑی چلانا شروع کردی گھر پہنچ کر شاکر نے دروازے پر گاڑی روکی اور مجھے کہنے لگا آج میں نے نوکر کو چھٹی دے دی ہے دروازہ خود ہی کھولنا پڑے گا دروازہ کھول کر پھر گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی اندر لے آیا پھر اتر کر گیٹ بند کرنے چلا گیا میں ابھی تک گاڑی میں ہی بیٹھی ہوئی تھی مجھ سے گاڑی سے اترنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی آج زندگی میں پہلی بار کسی نامحرم کے ساتھ میں گاڑی میں بیٹھ کر اکیلی آئی تھی اور آئی بھی کس کام کے لئے تھی ۔
”اتر آئیں روزینہ گھر میں کوئی نہیں ہے “میں شاکر کی آواز پر بھی گاڑی میں ہی بیٹھی رہی تو شاکر نے خود آکر دروازہ کھولا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گیا میں صوفے پر بیٹھ گئی تو میرے سامنے بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا
مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور آﺅ گی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مظفر کو بھی تمہارے میرے گھر آنے کی خبر ہے لیکن تم بے فکر رہو میں اس بات کا اس سے بھی ذکر نہیں کروں گا
تم واقع ہی بہت خوب صورت ہے اور تمہارے مقابلے میں مظفر کچھ بھی نہیں ہے یہ تو لنگور کو کجھور ملنے والی بات ہے
میں مسلسل خاموش تھی اور میری ٹانگیں مسلسل کام رہی تھیں میری خاموشی پر وہ سامنے سے اٹھ کر میرے قریب آبیٹھا اور اس نے میرے گلے میں ہاتھا ڈال لئے اس کے بعد میری چادر اتار کر صوفے پر پھینک دی اور میری گردن میں پیچھے سے ہاتھ ڈال کر مجھے میرے ہونٹوں سے کس کرنے لگا مجھے بہت عجیب سا محسوس ہورہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں نے سوچا کہ یہاں آج میں اپنی عزت تو ہر صورت گنوا ہی دوں گی کیوں نہ خود بھی مزہ لے لوں اب میں نے بھی شاکر کا ساتھ دینا شروع کردیا آہستہ آہستہ میں بہت گرم ہوگئی شاکر نے کسنگ بند کی اور مجھے لے کر دوسرے کمرے میں چلا آیا اس نے آتے ہی میری قمیص اتارنا شروع کردی پھر بریزیئر بھی اتار پھینکا اور للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا واہ کیا بات ہے اس کے بعد اس نے میری شلوار بھی اتار دی اور نیچے پہنی انگی بھی پھر اپنی شرٹ اور پھر پینٹ بھی اتار دی اب وہ صرف انڈر ویئر میں ہی تھا اس کا ہتھیار انڈر ویئر کے اندر سے ہی دکھائی دے رہا تھا اس نے مجھے بیڈ پر لٹا لیا اور مجھے ہونٹوں پر کسنگ شروع کردی میں اس کا بھر پور انداز میں ساتھ دے رہی تھی اس کے بعد اس نے میرے کانوں پر کسنگ شروع کردی مجھے عجیب سا مزہ آرہا تھا مظفر نے آج تک مجھے ہونٹوں کے علاوہ کہیں بھی کسنگ نہیں کی تھی کانوں کے بعد اس نے گردن پھر چھاتی پر میرے مموں کو چوسنا شروع کردیا مزے کے ساتھ میرے منہ آہیں نکلنے لگیں میں ایک عجیب سے نشے سے دوچار تھی اس کے بعد اس نے میری پیٹ پر کسنگ شروع کردی اورہوتے ہوئے میری ناف تک آپہنچا اس نے میری ناف کے ارد گرد اپنی زبان پھیرنا شروع کردی یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا میں شاکر کا سر بالوں سے پکڑ کر ہٹانا چاہا تو اس نے خود کو چھڑا کر پھر اپنا کام شروع کردیا پھر اس نے میری ٹانگوں پر کسنگ شروع کردی رانوں پر اس کی زبان اس طرح چل رہی تھی جیسے کوئی تلوار چل رہی ہو میں نیچے سے گیلی ہورہی تھی آج کئی مہینوں کے بعد میں سکیس کررہی تھی اور وہ بھی ایسے طریقے کے ساتھ جو پہلے کبھی میں نے سنا بھی نہیں تھا اب شاکر میری پنڈلیوں پر کسنگ کررہا تھا پھر اس نے میرے پاﺅں کے انگوٹھے اپنے منہ میں لے لئے میرے پوری جسم میں کرنٹ دوڑ رہا تھا میں بس بس بس ہی کہہ رہی تھی مگر وہ مسلسل اپنے کام میں جٹا ہوا تھاتھوڑی دیر کسنگ کے بعد وہ پیچھے ہوگیا اور گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنا انڈر ویئر اتار لگا میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے ہی اس کا انڈر ویئر اترا اور اس کا موٹا تازہ اور لمبا لن باہر آیا اور میری حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں کم از کم سات آٹھ انچ کا ہوگا
کیا تمام پنجابیوں کے لن اتنے لمبے ہی ہوتے ہیں ( اس کا لن دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا)
شاکر ہنسنے لگا اور اس نے کوئی جو اب نہ دیا وہ میری ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور میری ٹانگیں اپنے کوہلوں پر رکھ کر اپنے لن کو میری پھدی کے ساتھ رگڑنے لگا میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی اور جلد از جلد اس کی انتہا کو پہنچنا چاہتی تھی اس نے اپنا لن میری پھدی پر رکھا اور جھٹکا دے کر اندر کیا جھٹکے سے لن میری پھدی میں چلا گیا اور لن موٹا ہونے کی وجہ سے مجھے تھوڑی سی تکلیف بھی ہوئی میں سمجھی سارا لن اندر چلا گیا ہوگا مگر چند لمحوں کے بعد اس نے ایک اور جھٹکا دیا اور میرے منہ سے چیخ نکل گئی اب اس کا سارا لن میری پھدی میں چلا گیا تھا درد کے مارے میری جان نکل رہی تھی مظفر کا لن شاکر کے مقابلے میں آدھ ہی ہوگا اور موٹا بھی اتنا نہیں ہوگا آج پہلی بار اتنا بڑا اور موٹا لن لینے سے مجھے بہت تکلیف ہورہی تھی لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تکلیف دو چار منٹ کی ہے شاکر نے جھٹکے دینا شروع کئے تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے تکلیف ہورہی ہے تھوڑی دیر رک جاﺅ وہ رک گیا اور میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا اب مجھے اپنی سہاگ رات یاد آگئی جب مظفر نے پہلی بار کیا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی میں نے اس کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے کوئی بات نہ سنی تھی اور میرے تڑپنے کے باوجود کام جاری رکھا تھا اس کے برعکس شاکر کافی کواپریٹو تھا اس نے میری تکلیف پر خود کو روک لیا تھا چند منٹ کے بعد اس نے آہستہ آہستہ سے اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کیا پھر رک کر پوچھنے لگا کہ اب تو تکلیف نہیں ہورہی میں اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی میں نے کہا کہ نہیں تو اس نے آہستہ آہستہ سے اندر باہر کرنا شروع کردیا پھر بتدریج جھٹکے تیز کرنے لگا میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی چند منٹ بعد میں فارغ ہو گئی مگر شاکر ابھی تک اسی سپیڈ کے ساتھ لگا ہوا تھا میں اس کے ساتھ مزے لے رہی تھی قریباً پچیس منٹ تک وہ جھٹکے مارنے کے بعد فارغ ہونے لگا تو مجھ سے پوچھا کہ اندر ہی چھوٹ جاﺅں میں نے اثبات میں سر ہلاتو وہ اندر ہی چھوٹ گیااس دوران میں تین بار فارغ ہوئی تھی اس کی منی سے میری پھدی بھر گئی مظفر کے لن سے کبھی بھی اتنی منی نہیں نکلی تھی فارغ ہونے کے بعد وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اور میرا منہ چومنے لگا میں بھی اس کا بھرپور طریقے سے ساتھ دے رہی تھی کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ کچھ کھانا پینا ہے تو میں نے انکار میں سر ہلا دیا لیکن وہ اٹھا اور ننگا ہی کمرے سے باہر نکل گیا میں بیڈ سے اٹھی اور کپڑے پہننے لگی تو میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ میری پھدی سے نکلنے والے مادے اور خون کے چند قطروں سے بھر گئی تھی ابھی میں کپڑے پہننے ہی لگی تھی کہ شاکر ہاتھ میں جوس کے دو گلاس پکڑے اندر آگیا اور مجھے کپڑے پہننے سے منع کردیا اور کہا کہ پہلے یہ جوس پیﺅ پھر ایک اور شفٹ لگا کر اکٹھے نہائیں گے پھر تم کپڑے پہننا میں نے خاموشی سے اس کے ہاتھ سے جوس لیا اور بیٹھ کر پینے لگی اس دوران شاکر نے مجھ سے پوچھا کہ سچ سچ بتاﺅ تم کو مزہ آیا ہے کہ نہیں میں خاموش رہی مجھے کافی شرم آرہی تھی اس نے دو تین بار پھر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کہنے لگا کتنا تو میں نے شرم سے سر نیچے کر دیا پھر کہنے لگا کہ بتاﺅ نہ
میں نے سر نیچے کئے رکھا اور آہستہ سے کہا کہ بہت
شاکر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور کہا کہ اب کس سے شرما رہی ہو کھل کر بات کرو لیکن میں مسلسل اپنی نظریں نیچے کئے ہوئے تھی شاکر مسلسل میرے ساتھ باتیں کررہا تھا اور میں اپنی نظریں نیچے کئے ہوئے ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی جوس پی کر وہ پھر سے مجھے کسنگ کرنے لگا اب میں بھی پہلے سے زیادہ جوش دکھا رہی تھی پھر اچانک رک کر کہنے لگا پہلے سب کچھ میں نے کیا اب تم اپنی مرضی کے ساتھ کرو میں کچھ بھی نہیں کروں گا
میں کیا کروں
جو میں نے کیا ہے (اس سے پہلے مظفر ہی سب کچھ کرتے تھے میں نے کبھی بھی کچھ نہیں کیا تھا )
مجھے کچھ نہیں آتا
کیوں نہیں آتا تم کرو خود ہی ہوجائے گا یہ کہتے ہوئے وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا میں اس کے اوپر لیٹ گئی مگر کیا کروں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے مجھے کہا کرو نہ میں نے کہا کہ کیا کروں مجھے شرم آرہی ہے تو کہنے لگا کہ شروع میں کردیتا ہو ں اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں تمہارے دل میں جو آئے کرتی جاﺅ
اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور مجھے کسنگ کرنے لگا پھر اس نے کسنگ کرنی بند کردی اور میں اس کے ہونٹ چوسنے لگی پھر اس کے کانوں گردن اور پیٹ کے بعد ناف پر اپنی زبان پھیری تو اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اس کی ٹانگوں پر کسنگ کرنے لگی پھر اس نے پکڑ کر مجھے اوپر کیا اور کہا کہ اب لن کو اپنے اندر لے لو یہ پہلی بار میں لن کے اوپر بیٹھ رہی تھی میں اس کے لن پر بیٹھی تو اندر نہیں جارہا تھا میں نے آہستہ آہستہ کرکے اس کو اندر کیا تو وہ میری پھدی کی گہرائیوں تک اتر گیا اب میں خود بخود اس کے اوپر نیچے ہونے لگی مجھے پہلے سے بھی زیادہ مزا آرہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں فارغ ہوگئی اور میری پھدی کے پانی سے اس کی ٹانگیں اور پیٹ گیلاہوگیا میں اس پانی کو صاف کرنے کے لئے اوپر سے اترنے لگی تو اس نے منع کردیا اور کام جاری رکھنے کو کہا دس پندرہ منٹ اوپر نیچے ہونے کے بعد میں تھک گئی مگر مزہ اتنا زیادہ تھا کہ بس کرنے کو دل نہیں کررہا تھا میں مسلسل کئے جارہی تھی اور وہ اپنی آنکھیں بند کئے نیچے لیٹا ہوا تھا اس نے اپنی زبان اپنے دانتوں کے نیچے لے رکھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے میری مموں کو مسل رہا تھا وہ جس وقت بھی میرے نپل کو اپنی انگلیوں میں لیتا میری آہ نکل جاتی اب وہ فارغ ہونے والا تھا اس نے مجھے پھر کہا کہ اندر یا باہر مگر میں اس کی بات ان سنی کر کے لگی رہی وہ پھر فارغ ہوگیا اب کی بار تقریباً تین منٹ تک اس کا لن منی چھوڑتا رہا میں پوری طرح نڈھال ہوچکی تھی اور میرا جسم ٹھنڈا ہوگیا تھا میں اس کے اوپر ہی ڈھیر ہوگئی اس نے مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا تھا اور مجھے مسلسل چوم چاٹ رہا تھا جبکہ مظفر جب بھی میرے ساتھ کرتے تھے فارغ ہوتے ہی آنکھیں بند کر کے سوجاتے تھے انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں بھی مکمل ہوئی ہوں یا نہیں جبکہ اس کے برعکس شاکر مجھے بار بار پوچھ رہے تھے اور فارغ ہونے کے بعد بھی مجھ کو کسنگ کررہے تھے جس کا مجھے بہت مزہ آرہا تھا کچھ دیر بعد میں اس کے اوپر سے اٹھی تو اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا کپڑا اٹھا کر مجھے دیا اور کہنے لگا کہ اس سے خود کو صاف کرلومیں نے لیٹے لیٹے خود کو اور پھر شاکر کو صاف کیا اور اٹھنے لگی تو اس نے پھر مجھے پکڑ کر ساتھ لٹا لیا اور کہنے لگا کہ ابھی کدھر لیٹی رہو کچھ آرام کرومیں پھر لیٹ گئی اس نے مجھ سے باتیں کرنا شروع کردیں میں کافی حد تک ریلیکس تھی اور اب مجھے شرم بھی نہیں آرہی تھی میں نے بھی اس کے ساتھ باتیں کیں اس موقع پر کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی تقریباً ایک گھنٹہ لیٹنے کے بعد اس نے مجھے اٹھایا اور بازو سے پکڑ کر کمرے کے ساتھ ہی اٹیچ باتھ روم میں لے گیا اور شاور کھول دیا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی جسم پر پڑا تو مجھے کپکپی آگئی اس نے ایک بار پھر مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا پھر تھوڑی دیر بعد صابن پکڑ کر میرے جسم پر لگانے لگا پھر میں نے خود ہی اس کے کہنے کے بغیر ہی اس سے صابن پکڑ کر اس کے جسم پر ملا اور پھر پندرہ منٹ تک شاور لیتے رہے اور پھر دونوں نے ٹاول سے ایک دوسرے کو خشک کیا اور دونوں ننگے ہی باہر آگئے اس نے میرا بریزیئر پکڑ کر مجھے دیا اور پھر اس کے ہک خود ہی بند کئے پھر شلوار اور قمیص پہننے میں میری مدد کی اس کے بعد خود کپڑے پہن کر مجھے ڈرائنگ روم میں لے آیا اور خود کچن میں چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ میں ایک پلیٹ اور چند روٹیاں پکڑے آگیا پلیٹ میں دال تھی ہم دونوں نے مل کر دال کھائی اور پھر باتیں کرنے لگے اب اس نے مجھے پوچھا کہ اب بتاﺅ مظفر کا تبادلہ کہاں کرانا ہے میں نے جواب دیا جو آپ کی مرضی آپ کریں میں کچھ نہیں کہوں گی وہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا کہ دل تو نہیں چاہتا کہ تمہارے شوہر کا تبادلہ کراﺅں مگر اگر تم کہو تو سب کچھ کروں گا مگر میں چاہتا ہوں کہ ساری زندگی تم میرے پاس رہو اگر ایسا نہیں کرسکتی تو کم از کم کچھ دن اور مجھے اپنی قربت میں رہنے دو میں خاموش رہی پھر کہنے لگا کہ اب گھر جانا ہے یا مزید کچھ دیر ٹھہرنا ہے میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بج رہا تھا میں نے کہا جلدی سے گھر چھوڑ آﺅ بچے بھی آنے والے ہوں گے اس نے گاڑی نکالی اور مجھے گھر چھوڑ آیا راستے میں کہنے لگا کہ کل پھر آجاﺅ میں نے کہا سوچوں گی تو کہنے لگا کہ رات کو فون پر بتا دینا شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب مظفر گھر آئے اور آتے ہی میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے جیسے مجھ میں کچھ ڈھونڈ رہے ہوں لیکن بولے کچھ نہیں رات کو کھانے کے بعد لیٹے تو پوچھنے لگے کیا بنا میں نے جواب دیا کہ میں اس کے گھر گئی تھی تو کہنے لگے پھر میں نے کہا اس نے جو کرنا تھا کرلیا تو کرید کر کہنے لگے کیا کیا اور کیسے کیا میں خاموش رہی اور اس کے بارے میں سوچنے لگی کہ کیسے بے غیرتوں کی طرح پوچھ رہا ہے بار بار پوچھنے پر بھی میں خاموش رہی تو غصہ ہو گئے میں بھی جواباً غصے میں آگئی اور کہا کہ جس کام کے لئے بھیجا تھا اس نے وہی کام کیا ہے میرا غصہ دیکھ کر خاموش ہوگیا اس سے پہلے کبھی میں نے ان کے ساتھ غصہ میں بات نہیں کی تھی غصہ تو دور کی بات میں نے کبھی ان کو ایسے محسوس بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ جو پوچھ رہے ہیں میں وہ ان کو نہیں بتانا چاہتی مگر آج میں ان کے سامنے ان کے مقابلے میں جواب دے رہی تھی اور وہ بھی ان کے لہجے سے بھی زیادہ سخت لہجے میں مگر وہ ڈھیٹوںاور بے غیرتوں کی طرح بات سن گیا پھر کہنے لگا میرے تبادلے کا کیا بنا میں نے جواب دیا کہ اس نے کہا ہے کہ ابھی مزید کچھ دن اور اس کے ساتھ یہی کام کرنا پڑے گا تو اونچی آواز میں گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ سالا کتا حرامی تم آئندہ اس کے پاس نہیں جاﺅ گی میں خاموش ہوگئی تو کچھ دیر بعد خود بھی خاموش ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد بولا اب کس دن آنے کو بولا ہے میں نے جواب دیا کہ کل تو کچھ سوچ کر بولا کہ ٹھیک ہے چلی جانا مگر اس کو کہو کہ جلدی سے جلدی کام کردے اس کام کو لٹکنا نہیں چاہئے میں خاموش ہوگئی پھر میں نے مظفر کا فون لے کر شاکر کو فون کیا اور اگلے دن کے پروگرام کے بارے میں بتایا تو خوش ہوگیا اب میرا انگ انگ دکھ رہا تھا مجھے بھرپور نیند آئی رات کو ایک بار مظفر نے مجھے ہلایا اور سیکس کے لئے کہا تو میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور خود دوسری طرف ہوکر لیٹ گئی مظفر نے بھی دوبارہ مجھے ڈسٹرب نہیں کیا اگلی صبح پھر مظفر ناشتہ کئے بغیر ہی جلدی چلے گئے اور شاکر پروگرام کے مطابق مجھے ساڑھے نو بجے مجھے لینے آگئے اس دن انہوں نے مجھ سے ایک اور انداز کے ساتھ سیکس کیا جس کو میں نے بہت زیادہ انجوائے کیا اس دن سیکس سے فارغ ہوکر اس کو مظفر کی رات والی گفتگو سنائی تو ہنسنے لگا اور کہا کہ وہ بے غیرت ہے تم کو روک نہیں سکتا اس دن شاکر نے جاتے ہوئے مجھے ہزار ہزار والے دو نوٹ بھی دئےے اور کہا کہ یہ نوٹ مظفر کو دے دوں میں نے پہلے انکار کردیا پھر اس کے اصرار پر پکڑ لئے ہدایت کے مطابق میں نے یہ نوٹ مظفر کو دیئے تو اس نے ہچکچاتے ہوئے پکڑ لئے اس رات بھی مظفر کا دل شائد کچھ کرنے کو کر رہا تھا مگر میں سو گئی اس کے بعد دوسرے تیسرے دن میں شاکر سے ملتی رہی پہلے ایک آدھ بار مظفر نے مجھے تبادلہ جلدی کرانے کے لئے کہا مگر ہر بار میں اسے شاکر کی طرف سے دیئے گئے ہزار کبھی دو ہزار کبھی پانچ سو روپے دے دیتی اور وہ اس کو پکڑ کر جیب میں ڈال لیتا پھر آہستہ آہستہ اس نے تبادلے کے متعلق پوچھنا بند کردیا ایک سال ایسے ہی گزر گیا کہ اچانک ایک روز مظفر نے گھر آکر کہا کہ میرا کراچی تبادلہ ہوگیا ہے میں بہت افسردہ ہوئی میں اب شاکر کو ملے بغیر رہ نہیں سکتی تھی میں اس کی عادی ہو گئی تھی وہ ہر بار کسی نئے انداز کے ساتھ سیکس کرتا تھا میں نے جان بوجھ کر ہی کہا اچھا ہوا شاکر سے بھی جان چھوٹ جائے گی تو جواب میں مظفر نے کہا کہ نہیں روزینہ نہیں اب ہم لوگ یہاں سیٹل ہوچکے ہیں کہیں اور جاکر پتہ نہیں کیسے حالات ہوں تم شاکر سے کہو کچھ کرے میں نے شاکر سے کہا تو ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ یہ آرڈر میں نے جان بوجھ کر کرائے تھے تم فکر نہ کرو میں خود بھی ایسا نہیں چاہتا اس کے اگلے روز ہی مظفر خوشی خوشی گھر آیا اور کہنے لگا کہ تم بہت اچھی ہو شاکر سے کہہ کر میرا تبادلہ رکوا دیا اب بھی ہفتے میں دو بار شاکر کے ساتھ ضرور ملتی ہوں اس سے میری ” ضرورت“ بھی پوری ہوجاتی ہے اور میرے شوہر کو کچھ رقم بھی مل جاتی ہے کبھی کبھی جب شاکر مصروف ہوں یا لاہور میں نہ ہوں تو میں مظفر کے سامنے ان کے ساتھ موبائل پر لمبی لمبی گفتگو کرتی ہوں جبکہ مظفر کمرے سے نکل جاتا ہے اگر کبھی مظفر کی موجودگی میں شاکر گھر آجائے تو وہ شاکر کو بٹھا کر کسی بہانے سے باہر چلے جاتے ہیں
میں شاکر کی بہت شکر گزار ہوں ان کی وجہ سے مجھے نئے نئے مزے کرنے کا موقع ملتا ہے اور آج تک شاکر نے کبھی مجھے بلیک میل کرنے یا مجھ پر دھونس جمانے کی بھی کوشش نہیں کی جب کبھی میرا سیکس کو دل نہ کرے تو شاکر میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرتا مجھے شاکر کی دوسری کئی لڑکیوں کے ساتھ معاملات کا بھی معلوم ہے لیکن میں نے اس کو کبھی منع نہیں کیا ایک بار میرا دل کیا کہ میں مظفر سے طلاق لے کر شاکر سے شادی کرلوں یہ بات میں نے شاکر سے کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرسکتا اس لئے میں طلاق نہ لوں اس کی اس بات کا مجھے دکھ تو بہت ہوا لیکن بعد میں میں بھی سمجھ گئی کہ طلاق کے میرے بچوں اور خاندان میں کیا اثرات ہوں 

Your feedback is very important for us.  plz  contact sexexpert75@yahoo.com

Monday 10 October 2011

Night with Mami


Hi….all , I m Rahul Rana from Haryana, 22yrs old, 5’11’’ tall with average build and an average length Tool ;) . Main hamesha socha karta tha ki kabhi kuch achcha mere saath nahi hoga,lekin ek din wo din aa hi gaya. Here my story goes, Jaisa ki main pahle hi keh chukka hoon ,Main average build ka banda hoon,not so attractive too.Ye kahani suru hoti hai jab main 20 saal ka tha, aaj se 2 saal pahle main summer me apni nani ke yaha gaya hua tha, Peechle kai saal se naa jaane ki wajah se waha mujhe kai din rookne ka mauka mila.Wahan pados me hi ek lady rehti thi.
Riste me to wo meri mami lagti thi lekin sagi nahi thi.Uska naam Shalini tha-age 30-31,shaadi ko 11 yrs ho chuke the,barat me main bhi gaya tha :P ,2 bachche bada wala 8 yrs ka chote wala 5 yrs ka.Lekin summer vacation ki wajah se dono apne mama keg aye huye the.Mami ki height 5’5’’ ke karib thi ,colour ek dum fair ,but kya batau figure aisa ki ek dum hot 35-30-37.She used to wear sarees –looks damn hot,deep-cut blouse, perfect s her cleavage,and a perfect belly ekdum white doodh jaisi.Uske husband ki age 39 ke karib hogi,works in a iron mill.
Use daroo peene ki aadat thi, daily ek adhdha,mostly unme isi baat pe ladai rehti thi. Jab me waha gaya to use dekh ke mere hosh ud gaye ,Wo pahle mujhe kabhi itni seducing nahi lagi,Lekin is baar to wo qayamat dha rahi thi.Main to use dekhta hi reh gaya.Wo aksar hamare ghar aaya jaya karti thi,bilkul aamne samne ghar the or villages me sabhi se achcha melzol hota hai isliye main bhi unke yahan chla jata tha.Main raat din uske khyalo me hi khoya rehta.and raat me chat pe akela sota taki koi jugaad lag jaye use dekhne ka.

Ekdin ki baat hai main unke yahan gaya or shalini mami ke sath carrom khelne laga,bachche they nahi and mr. daroobaaz-her husband on job,ghar me hum dono akele.it was morning time ,10-10:30 ki baat thi,Wo boli main naha ke aati hoon abhi ,itne TV dekh lo. Wo uth ke bathroom gayi ,or tabhi wapas aake boli “ shampoo khtam ho gaya hai , dukan se laa doge” . Maine kaha” bilkul abhi laya”. Main utha or shampoo lene chla gaya .Wapas aane me 10 min lag gaye the.Wo bathroom me hi thi .Maine shampoo dene ke liye use aawaz lagai.
Usne bathroom ka darwaza khola or boli lao.Use dekh ke meri saans atak gayi wo sirf blouse or petikot me thi,green colour ka blouse or same colour ka petikot tha.Wow c was looking like a apsara.Mera to dil ker raha tha ki bas abhi pakad loon ise lekin control ker gaya.Main use dekhta hi raha .Wo hansi or mere haath se shampoo cheen lia or darwaza band ker lia.Meri to saanse badh gayi thi.
Wo naha ke nikli usne ek gown pehn rakha tha black colour ka .pata nahi ye night gown usne din me kyun pehna tha.Wo behad patla tha.uski bra or panty dono dikh rahi thi-both were of pink colour (pata nahi her sexy lady ko pink se itna pyaar kyun hota hai).Wo phir khelne lagi ,is baar uska white cleavage saaf-2 dikh raha tha, mera to haal karab ho raha tha.Main uske cleavage per hi nishana saadh raha tha,kisi tarah carrom ki goti ya striker uske cleavage pe jaa ke gire.Main try kerta raha or ekdum se striker uchla or uski ghati me jaa phansa.
Maine anjaan bante huye kaha oh,usne muskurate huye wapas khelna chaloo ker dia ,ab to wo or jhook -2 ke nishana laga rahi thi . or mujhe poora nazara mil raha tha.Maine phir striker ko uchaal ker target pe pahuncha dia.Usne wapas muskurate huye kaha” lagta hai tumhara dhyan khel me nahi hai”. Maine bhi bold bante huye kaha ki sara dhyan to aap bhatka rahi hain.Wo zor se hasne lagi.Phir boli neembu pani peena hai . Main bola doodh peeunga .
Wo boli “doodh to nahi hai aaj doodhiya nahi aaya ..maine bhi chai nahi pee subah se”.Main bola “apna hi peela do .mere layak to neekal hi aayega”.Wo hanste huye boli “ki tumse nahi pachega ye doodh”.Main bola “ek baar moka to do”.Wo boli “apne mama ki halat nahi dekhi aisi halat ho jayegi”.Main bola “mama to bhude ghode hai unme wo baat kaha” .Wo phir boli “ bahot jawani chah rahi hai ,jaa ke koi kunwari kanya dhoondo , main bhi buddhi ho gayi hoon”.
Maine kaha “kunwario me wo baat kaha jo aap me hai.agar aap haan karo to aap ko main abhi bhga ke le jau” (maine makkhan lagate huye kaha).Wo boli “achcha kuch zyada hi payaar aa raha hai mujh pe”. Main bola “aajma ke dekh lo” .Uske husband ke aane ka bhi time ho raha tha.Main waha se utha or chla aaya .Ek baar muth maari or apni aag saant ki .Per mere dil-o –dimaag pe to wohi chai huyi thi.
Agle din phir wahi khel lekin aaj usne salwar suit dal ke raha tha plus chunni bhi. Yaani aaj koi nazara nahi.Maine kaha “itni garmi me ye chunni kyun dal rakhi hai “.Usne muskurate huye kaha “ taaki tum kahin or nishana na laga sako”.Do din baad uske husband ki shift change hone wali thi . Maine kaha “ab hum kaise khelenge mama yahan din me soyenge or mere aane se disturb honge”.Usne kaha “raat ko aa jana .chat pe to sote hi ho”.Maine kaha “raat ko carrom ki aawaz se log jab jayenge” .Wo boli “ludo khel lenge”.Main khush tha sayad ye raat mere liye suhani sabit ho jaye.
Idher do din baad uske husband ki shift change ho gayi raat 10-6 am . Wo 9baje raat ko jaata or subah 7 baje aata.Main bhi raat ko chat pe 9 ke karib chla gaya.Main akela hi chat pe sota tha.10 pm ke karib main uski chat se hote huye uske ghar pahunch gaya. Wo doodh garam ker rahi thi . Mujhe dekh ker kaha “doodh peeoge”.Main bola “apna pila rahi ho kya”.Or wo bina bole hasne lagi.Phir wo boli “bas 5 min me main naha ke aati hoon itne tum baitho”.Wo gayi or 5 min me hi aagayi .Usne ek nighty dali huyi thi Halke blue colur ki ,zalidar nighty or ye kya usne bra bhi nahi dali huyi thi.Uske nipple ko upper se saaf dekh sakta tha .
Wo baithi or boli “kounsa game kheloge” .Main bola “aap bataye main to aapke saath her game khelne ke liye taiyaar hoon”.Usne meri taraf dekha or phir boli “sanp seedhi khelte hain”.M ain bola “theek hai .per ye game hum shirt(bet) pe khelenge”.Wo boli “theek hai”.Main bola “agar main jeeta to kuch bhi maang loonga or aap jeeti to aap”.Wo smile dete huye boli “main janti hoon tum kya mangoge.lekin main tumhe jeetne nahi doongi.tumhare mama kabhi nahi jeet paye mujhse”.Main khus tha ki aaj kuch bhi ho jaye mujhe apni manzil paani hai.
Thodi hi der me main jeet gaya .sayad mera luck mere saath tha.Wo boli “maango kya chahte ho”.Main bola “aapko to pata tha main kya chahta hoon” .Wo boli “khud hi bata do”.Maine socha ki agar maine seedha ye kaha main aapko chodna chahta hoon to saayad ye mana ker de.Maine phir soch ke kaha “mujhe to doodh peena hai aapka”.Wo muskarai boli “main jaanti thi ki tere man me kya hai”.
Wo phir boli “theek hai per usse zyada kuch nahi”.Main bhola bante huye bola “mami usse zyada kuch nahi karoonga”.Usne uth ke darwaza band kia or bed pe baith gayi.Mere to mann me na jane kitne bigul baj rahe the.Main uske pass gaya .Surkh gulabi honth,gazab ka cleavage.Maine uski nighty shoulder se sarka ke uttar di.Waah kya sudol boobs the ekdum perfect ,milk white ,pink nipple.Wo thoda sarma rahi thi usne apni aankhe band ker li .Maine usse letne ke liye or dono hath upper kerne kaha.
Wo let gayi or dono hath upper ker liye.Uski armpits bhi gazab ki thi ekdum saaf.Main to pagla gaya tha.Maine apne dono hatho se uske boobs chuye,ek dum soft,I cant define that feeling it was my first experience.Ab maine uska right wala nipple muh me lia or uske dono boobs ko bhichne laga.usne ekdum se aawaz nikali” shiiiii aah aaram se rahul”.Main bola “ekdum aaram se karoonga bas aap chupchap laiti raho”.5 min me hi uska chehra laal pad gaya or nipple ekdum hard ho chuke the .Or mera pahle se zyada boora haal tha.underwear me hahakar macha hua tha.
Ab uske boobs chod me uski armpit me apni cheebh feerane laga .Is baar to wo chilla hi padi bas ab rook jao.Main bola “plz thoda or kerne do”.Wo iske bawzood uthne ke liye try kerne lagi .Maine dono hatho se use zakad lia or poora uske upper let gaya .jiski wajah se wo uth nahi paa rahi thi. Ab uske neck se hote huye maine uske lips per smooch kia .Wo kasmasai .Maine kaha “plz mami ek baar smooch kerne do phir chor doonga apni kasam” Wo mere neeche fanshi huyi thi .kya kerti?
Maine uske hontho ka ras choosna chaloo kia pahle to usne thoda hatne ka pryas kia lekin phir wo bhi sooro ho gayi beech beech me wo bhi mere lips ko chusne lagti.10 min tak uske meethe honto ko chusne ke baad me halka sa muskaraya.Wo bhi smile deti huyi boli” bas ho gaya na ab bhi kuch chusna baaki hai”.Maine kaha “haan baaki hai na”.Wo ajeeb si nazro se dekhti huyi boli “ab kya”.main bola” neeche to ek khazana hai uska ras bhi peeunga”.Usne sayad ye kabhi try nahi kia tha. is liye boli “kya baat ker rahe ho chi-2”.
Main bola “film me nahi dekhti kya”.Wo boli “per maine aisa kabhi nahi kia”.Main bola “aaj ker lo”.Wo boli “nahi bahot ho gaya ab hato or jao”.Main phir wahi makkhanbazi kerne laga “plz mami ek baar sirf uske baad chla jaunga”.Usne kuch nahi kaha.Main samajh gaya.Maine uske upper lete huye hi uski nighty upper uthane laga.Wow kya chikani thighs thi eknum sangemermer ke saman white or chikani .As I guessed she didn’t wear any panty.Ek dum white chut ,no hairs sayad 1 din pahle hi saaf ki thi.Maine us per apni finger firayi or halki si dalne laga.
Wo siskari bharte huye boli “aah nahi”.main ab utha or uski belly per se apne haath firata hua,uski navel me tongue dal ke chusne laga.Or phir uski tango ke beech me pahuch gaya.Wat a devine beauty she was.Maine uski phanko per apni tongue firayi.Wo machal uthi .Bas fir kya tha maine uski chut me apni tongue daal di.Uski chut badi tight thi,lagata tha kai hafto se sex nahi kia tha.Main to bas pagal ho utha.
Uski chut se bhini bhini khusboo aa rahi thi.Or wo dheere-2 dheere aah..siii siii ker rahi thi.10min tak kerne ke baad usne ekdum se mere sir ko zor se pakada or dabane lagi.Bas iitene me hi uski chut se pani risne laga.Wow uska taste bhi gazab ka tha.Main phir bhi chate jaa raha tha.Wo ab boli “bas rahul main ab mar jaungi plz ruk jao”.Main ruk gaya uska chehra ekdum lal ho chuka tha .Wo aaram se let gayi.Main bhi uth ke us ke pass pahucha .Mera to ab bhi boora hi haal tha.
Main bola “maza aaya” .Wo boli “bahot” .Maine poocha “mama ne kabhi kia”? .Wo boli” wo sex aise kerte hai jaise duty….light bhoojha ke wo bh”.Main bola “mami meri ek request hai ki aap mera bhi aise hi chooso”.Wo ekdum se hichkichayi.Main bola “aapko itna hi maza aayega”.Wo maan gayi.
Main apne dono ghutno pe bed per khada ho gaya.Wo boli “mujhe hi nikalna padega”.Main bola “aap hi nikalo isme sharm kaisi”?Usne mera lower neeche ker dia phir underwear bhi.Tabhi mera khada lund bahar aa gaya.Jaisa ki main pahle hi bata chukka hoon mera tool average hai lagbhag 6.5” ka.Use dekh uski aankho me chamak aa gayi.Usne use neeche se pakad lia or 1 min tak mere lund ko sehlati rahi.isse Meri halat khrab ho rahi thi.Phir maine kaha “plz mami ab ise apne muh me daal bhi lo”.
Usne neeche zhook ker mere lund ke tope pe apni tongue phirayi.Kya gazab ki feeling thi .Uski garam garam tongue ka ehsaas mere lund per “ahh”.Maine kaha “maami tadpao mat ise ice-cream ki tarah chooso”.Usne bas usi tarah choosna start ker dia.Main to bas saatve aasman pe tha.Lagbhag 10 min tak wo choosti rahi .Maine use rok dia.Wo boli “choosne do na”.Main bola “aap to choosti rahogi mujhe kya milega”?
Is baar usne smile dete huye kaha “hmmm ab to tu manega nahi”.M aine kaha “ab aapne mana kia tab bhi main aapka rape ker doonga”.Wo boli “na baba na aaram se hi lelo main kab mana ker rahi hoon”.Ye kehte huye usne mera lund chod dia.Maine use seeedha leta dia or ek takia uski kamar ke neeche laga dia.Phir uski tango ke beech me baith gaya ,or uski chut ko ek baar kisss kia .
Ab maine apna lund uski Chut pe tikaya. Wo boli “aaram se kerna”. Main bola “aapko pata bhi nahi chalega”.Maine pahle to dheere-2 under dalne ki koshish ki phir ekdum se ek jhatka mara aadha lund uski chut me ghush chukka tha .Wo chillai “uyi maa mer gayi”.Uski chut under se garam garam thi ye mera pehla ehsaas tha wakyi bade gazab ka tha.Main 10 sec ke liye ruka or phir ek jhatka dia is baar poor aka poora under daal dia.
Wo phir kasmasai.per bhag bhi nahi sakti thi.1 min rukne ke baad maine dheere -2 dhakke maarne start kiye.Or uske muh se siskaria nikal rahi thi”si sis aaha aah “.Thodi der me maine speed bada di or usne bhi saath dena chalu ker dia.Wo bhi apni kamar hilane lagi or sath me zor zor se aahe bharne lagi”or zor se rahul plz aah aah”.Wahi main to zannat ki sair ker raha tha.
Kareeb 10 min baad usne mujhe kas ke pakad lia or mujhe garam sailab sa uski chut me mehsus hua.Wo jhad jhuki thi.Uski chut ab zyada chikani ho gayi thi.Wo ab mujhe rokna chahti thi per main laga raha.Uske 5 min baad mujhe bhi laga ki bas mera engine bhi dhuan fekne wala hai maine speed badha di.or sara lava uski chut me bhar dia.
Main jannat me tha.main uske upper hi leta raha or 5 min tak usko smooch kerta raha phir uski bagal me let gaya or use dekhta raha.
Wo bhi mere balon me apna haath firati rahi .Maine usse poocha kaisa laga .Wo boli”itna maza to kabhi nahi aaya”.Main bola “ki phir ho zaye”.Wo boli saans to lene do.Or maine use fir baho me le lia .Us raat maine uske saath 3 baar kia.or subah 4 baje wapas jaake so gaya.Is incident ke baad me10 din tak raha wahan raha or roz use 3 baar kabhi 4 baar chodta. Ab bhi main apne mama ke jaata hoon to uski chut ka ras zaroor chak ke aata hoon.ye thi meri story aapko kaisi lagi plz mujhe mail kerke bataye meri id is sexexpert75@yahoo.com


Thursday 17 February 2011

Majboori Ka Faida

hello, doston main karachi ek school main principal hoon, first time aap ki khidmat main hazir ho raha hoon apni kahani lekar umeed hai pasand aayegi. 
Yeh ab se koi 2 saal pahle ki baat hai main apne office main tha ek 35 years ki ek khatoon dakhil huin aur apna taroof karaya k mera naam Rehana hai aur main tanveer ki khala hoon jo k aap k school main parhta hai. Main poocha k masla kia hai kahne lagin k teacher tanveer ko 9th class main Science ki class main nahi betha rahi hain kahti hain k marks kam jis ki wajah se tanveer ko science nahi mil sakti, lehaza aap se request hai aap meri madad karen maine unhain saaf saaf kah dya k school ki rules k mutabiq tanveer ko science nahi mil sakti. Woh yeh sun kar rone lagin aur rote huye kaha k mera ghar barbaad ho jaye ga maine pocha kaise tou unhone bataya k tanveer unka bhateeja yani un k jeth ka beta hai aur jeth middle east main rahte hain unki biwi is dunya main nahi hai, mere shohar ko unhone hi mobile shop khulwa kar di hai, jeth ne badi sakhti se kaha tha k tanveer ko her surat doctor banana hai is kisi kism ki kotahi nahi honi chahiye woh her mahina tanveer k perhai ke illawa bhi paise bhejte hain. ab agar tanveer ko science nahi mili tou woh na sirf naraaz honge bal k paise bhejna bhi band kardenge, jis se mere ghar main tangi ho jaigi kyun k mere shohar proper shop khulte hi nahi tou aamdani bhi koi khaas nahi hoti, kuch lamhe ki khamosh k baad bolin sir aap kuch kijiye please aap ko jitna paisa chahiye main dongi, jab woh yeh baaten kar rahi thin meri nazar un k adhe nazar aane wale boos per thi kyun un k rone k doraan unka dopta unke gale se hat gaya tha, aur unka seena saaf nazar aa raha tha bohat hi khubsorat nazara tha jis se main lutf andoz ho raha k unhain bhi iska ehsaas ho gaya aur woh jaldi se dopta apne seene per daal liya phir bolin sir aap ne jawab nahi dya tou main kaha k mujhe sachne den aur unko aaj raat main phone karne ko kaha. woh jane lagin tou maine sirf itna kaha k aap bohat haseen ho, jis per unhone muskura kar thnx kaha aur chalin gain. Un ke jane ke baad main apne dosre kaam main lag gaya lekin dimaagh main unke woh aadhe boobs ka manzar fixed ho gaya, shaam 3 baje mainghar pohanca khana khane k baad kuch der aaraam karne k liye leta tou phir wohi manzar tha ab k shaitan ne mere dimaagh use hasil karne ka programme dal dya, koi 6 baje main uth kar bath lya aur kapre change kar k bahar doston k pass chala gay wohan se 9 baje raat aaya hi tha k mere cell phone ki ghanti baji unkown No tha pr uthaya tou tanveer ki aunty thin, mere hello kahte hi dosri taraf se sir aap ne kia faisala kia, mainejan chudane k liye direct un se kaha k mujhe paise nahi chahiye tou unhone pocha phir maine kaha aap chahti hain k tanveer ko science mil jaye, unhone kaha g. maine kaha k agar us k exam main pass hone ki zamanat bhi doon tou aap meri yeh kah kar maine jaan boojh kar baat aadhi ki, woh foran bolin aap ki kia, main kaha khawaish unhone pocha kia hai aap ki khawaish maine foran kaha agar aap bura na maane tou kahon is per unhone kaha aap kahen main bura nahi manogi, main kaha meri khawaish aap hain, dosri taraf se ek lamhe ki khamoshi k baad yeh aap kia kah rahe hain maine kaha soch len main aap se soda kar raha hoon meri baat maan ne ki surat main tanveer ki school fees bhi min ada karonga aur tutions fees bhi is k illawa examination main pass bhi karaonga is k liye aap ko one month main sirf 2 times apne aap ko mere hawale karna hoga raazdari rahegi meri taraf se, agar manzoor ho tou kal friday ko school aa kar baat kar len, yeh kah kar maine phone band kar dya.Friday morning main apne waqt per school pohanch gaya taqreeban pura waqt guzar gaya lekin tanveer ki khala nahi aain, main samjha k woh raazi nahi hai, school ki chutti ho gai tamam bache aur teachers jane lagin ghar, main bhi jane ki tayyari kar raha tha k Tanveer ki khala room main dakhil huin unko dekh kar maine foran pocha kia faisla kia woh bolin k aap ne jo baaten ki uski zamanat kia hai maine kaha yeh dekhiye maine tanveer ko science ki permission de ddi hai aur us ki school fees bhi pure saal ada karne k liye yeh voucher fill kar dya hai kal subah bank main jama kara donga agar aap raazi huin tou, unhone kaha k yeh baat kisi ko pata chal gai tou maine kaha yeh baat raaz rehgi kisi ko pata nahi chalega, phir kuch der baad woh bolin k mujhe kahan aana hoga, maine kaha kal subah 9.30 per school aa jain, woh bolin k saturday ko school band hota hai main school main dakhil hongi tou kisi ko shak hoga usper maine kaha saturday ko school students aur teachers k liye band hota hai parents aa sakte hain koi complaint darj karane ya koi aur masla ho tou main zaroor aata hoon mere ilawa sirf chowkidar hota hai, unhone pocha k chowkidar ko kia pata nahi chalega maine kaha nahi aap k aate hi main usko kaam se bhej donga, woh boli achcha phir main kal aaongi aur phir chali gain un k jate hi main bhi room ko lock kiya aur chowkidar ko main gate band karne ka kaha aur yeh bhi kaha k kal tumhain saddar aur urdu bazar jana hai usne bola theek hai saab.Saturday monrning main khub tayyari k saath subah 9 baje school pohanch gaya theek 9.30 baje Mrs. Rehana(Tanveer ki khala) aa gain un k haat main fees muaafi ki application thi(jo k maine unko kal di thi k aap jab aain tou chowkidar ko dekha den k application principal ko deni hai) unhone aisa hi kia, chowkidar bhi saath aaya maine us koRs 5000 aur ek list thama di aur kaha k yeh cheezen le aao aur yeh bhi kaha k main abhiek ghante main board office jaonga tum 4 baje tak aana main 4 baje tak hi aaonga, us k saamne main rehana se yeh kaha aankh mar k k bibi abhi tou main ja raha hoon aap kal aaiyega tou rehana ne kaha k sir please 2 minutes ki baat hai mera masla dekh len aur bohat ziada request karne lagin jis per maine un se kaha k achcha theek hai dekhaiye kia masla hai, usi lamhe chowkidar bola main jaon saab maine kaha haan tum jao, woh chala gaya tou main uth kar main gate tak aaya jab woh bas main sawaar ho gaya tou maine gate band kar dya aur apne room main aaya Mrs. Rehana kuch dar rahi thin maine unhain baazo se pakar kar khara kia aur un k honton per apne hont rakh diye woh kuch peeche ko huin tou maine unko kamar se pakar kar apni janib khencha jis se un k boob bilkul mere seene sejud gaye phir maine zordar kissing shuru kardi kabhi honton ki tou kabhi gardan aur kaan ki lou ki jis se woh garam hone lagi phir main unko apne aaraam karne wale room main le gaya jo k principal k room k bach main tha jis ka rasta principal k room se bhi jata hai, wohan unko bed per leta kar kissing shuru kardi ek haath se un k boobs ko dabane laga, phir maine unki kameez utari tou un k jism k gore pan ko dekh kar main heran rah gaya ander se rehana ka jism bohat gora tha. Maine un k boobs ko haaton se maslna shuru kia jis un k munh se ohn ohn ki aawazen nikalne lagi phir main nipples ko chosne laga aur ek haat se unki choot ko sehlane laga jo k badi hi soft ho rahi thi, phir maine apne tamam kapre utar diye aur un k bhi ab hum dono bed per is tarah let gaye k main unki choot ko chatne laga aur woh mere lund ko chosne lagin bohat hi maza aa raha tha phir jab woh full garam ho gain tou main uth kar baitha aur inki dono tangon ko uper uthaya aur un ki choot main apna lund daal kar zor dar dhaka dya jis se un k munh se cheekh nikal gai mera lund pura unki choot k ander chala gaya, rehana ki dono tangon ko apne kaandhe per rakh kar ander bahir apne lund ko karta raha is tarah rehana ko maza aa raha raha tha aur woh bhi zor laga rahi thi, kuch der is tarah karne k baad maine unko ghodi banaya aur dogi style se chodna shuru kia jab zor se chodta tou woh aah aah ki aawazen nikalti. phir koi 10 minutes dogi style se chodne k baad phir unko seedha letaya aur boobs nd nipples ko chosne laga aur woh mere lund ko sehla rahi thin phir khud hi mere lund ko apni choot main dalne lagin tou maine zor se dhaka laga jis mera lund unki choot main pura ghus gaya aur chekne lagin main pehle aahista aahista baad main zor zor se dhaka lagane laga aur woh takleef ki wajah se apne dono haton se mujhe hatane ki nimdilana koshish karti rahi aur maine discharge ho gaya. us k baad kuch der aaraam kia aur phir rehana ki chudai, aaj maine unko 3 times choda, maine Mrs. Rehana ko fees jo jama karai thi us ki receipt di aur kaha k tanveer ko monday se tution centre bhej dena. Woh jane lagin tou ek lama kiss kia aur pocha k chudai se woh satisfied hui tou unhone sirf sharma kar itna kaha k shadi k baad aaj main pehli baar theek tarah se chudi hoon yeh kah kar woh chalin gain. Saal ho gaya Rehana ko chodte huye tanveer achche numbers se papers clears karliye ab woh tenth class main hai. Yeh thi meri biwi se hat kar pehli chudai ki kahani, readers aap logon ko meri yeh first chudai ki story kaisi lagi mujhe apne raye mail kijye mere email address per jo k yeh hai. 


for feed Back veryhotstories@yahoo.com